شب براءت کے فضائل
رات جاگنے پر دلائل قرآن وسنت سے
قیام لیل اور شب بیداری کا حکم مطلقا موجودہے اور مطلق حکم ہر زمانے (وقت) اور ہر فرد اور ہر حالت کو شامل ہوتا ہے جبتکہ کسی معین وقت یا فرد یا حالت کی ممانعت کی دلیل نہ آجائے ۔بطور نمونہ چند آیات اور احادیث پیش خدمت ہیں جنمیں رات کے قیام کو صفات متقین بیانکیا گیا اور رات کے قیام پر ابھارا گیا۔تو جولوگ شب براءت کو شب بیداری یا اس رات کی عبادت سے منع کرتے ہیں وہ اسکی ممانعت پر دلیل پیش کردیں کہ اس رات کا قیام ممنوع اور ناجائز ہے اوریہ تاروز قیامت نہیں لاسکتے۔اور جو رات کو قیام کرتے ہیں اور شب بیداری کا اہتممام کرتے ہیں ان کے پاس مستقل اس رات کی کوئی دلیل نہ بھی ہو تو یہ آیات مبارکہ اور احادیث کافی ہیں۔ بحمدللہ ہمارے پاس تو مستقل اس رات کے فضائل ومناقب ورات کے قیام وبیداری پراحادیث بھی موجود ہیں تو پہلے مطلقا بیداری اور قیام لیل کی آیات اوراحادیث کا مطالعہ کیجئے اور اسکے بعد ان احادیث مبارکہ کا ذکر ہوگا جنمیں خصوصا اس رات کے فضائل کا ذکر ہے
تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘ وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(16) سورۃ سجدۃ
ترجمہ: اُن کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خواب گاہوں سے اور اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور اُمید کرتے اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے کچھ خیرات کرتے ہیں
کَانُوا قَلِیلاً مِّن اللَّیلِ مَا یَھجَعُونَ o وَبِالاَسحَارِھُم یَستَغفِرُونَ o الذاریات
وہ رات میں کم سویا کرتے
یبیتُونَ لِرَبِّھِم سُجَّدًا وَقِیَاماً (الفرقان۔ ع۔ ٦)
ترجمہ:”اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں“
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ﳓ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹)سورۃ بنی اسرائیل
ترجمہ:
اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد کرو یہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں
وعَنْ أَبي هُريرة ، قَالَ: قالَ رسُولُ اللَّهِ ﷺ: رحِمَ اللَّه رَجُلا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ، فصلىَّ وأيْقَظَ امرأَتهُ، فإنْ أَبَتْ نَضحَ في وجْهِهَا الماءَ، رَحِمَ اللَّهُ امَرَأَةً قَامت مِن اللَّيْلِ فَصلَّتْ، وأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا فإِن أَبي نَضَحَتْ فِي وجْهِهِ الماءَ رواهُ أَبُو داود بإِسنادِ صحيحٍ.
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔
وَعنْهُ وَعنْ أَبي سَعيدٍ رَضِي اللَّه عنهمَا، قَالا: قالَ رسولُ اللَّهِ ﷺ: إِذَا أَيقَظَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ مِنَ اللَّيْل فَصَلَّيا أَوْ صَلَّى ركْعَتَينِ جَمِيعًا، كُتِبَا في الذَّاكرِينَ وَالذَّكِراتِ رواه أَبُو داود بإِسناد صحيحٍ.
ضرت ابو امامہ باہلیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رات میں قیام کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ یہ اگلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف قربت کا ذریعہ اور گناہوں کو مٹانے والا اور گناہ سے روکنے والا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۳ الحدیث: ۳۵۶۰)
(2)…حضرت اسماء بنتِ یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاسے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن لوگ ایک میدان میں جمع کیے جائیں گے، اس وقت منادی پکارے گا، کہاں ہیں وہ جن کی کروٹیں خواب گاہوں سے جدا ہوتی تھیں ؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور تھوڑے ہوں گے یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے پھر اور لوگوں کے لیے حساب کا حکم ہوگا۔( شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، تحسین الصلاۃ والاکثار منہا لیلاً ونہاراً۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۲۴۴)
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جنت میں ایک بالا خانہ ہے کہ باہر کا اندر سے دکھائی دیتا ہے اور اندر کا باہر سے۔ حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کس کے لیے ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اُس کے لیے جو اچھی بات کرے اور کھانا کھلائے اور رات میں قیام کرے جب لوگ سوتے ہوں ۔( مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوّع، صلاۃ الحاجۃ، ۱ / ۶۳۱، الحدیث: ۱۲۴۰)
اب جب قرآن وسنت میں مطلقا (بغیر وقت اور فرداور جگہ کی تخصیص) کے رات کے قیام اور بیداری کی ترغیب موجود ہے تو اب کوئی اکیلے جاگے یا اجتماعی طور پر ،مسجد میں یا غیر مسجد میں تواسکو اختیارہے
بلکہ اجتماعی طور پر ذکر اور قیام اور بیداری زیادہ بہتر اورقبولیت کے زیادہ قریب ہے کیونکہ حدیث پاک میں موجودہے
عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال: «إِنَّ للهِ مَلاَئِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ» قَالَ: «فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا» رواه البخاري من حديث أبي هريرة رضي الله عنه.
حضرت ابو ہریرہ - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اوراللہ کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ پھر جب وہ ایسے لوگوں کو پا لیتے ہیں کہ جو اللہ کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مطلب حاصل ہوگیا۔ پھر وہ نچلے آسمان تک اپنے پروں سے انہیں گھیر لیتے ہیں۔ (پھر ختم پر اپنے رب کی طرف چلے جاتے ہیں
شعبان المعظم کی خصوصی فضیلتیں احادیث مبارکہ کی روشنی میں
سألتُ عائِشةَ: كيفَ كان رَسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَصومُ؟ قالت: كان يَصومُ حتَّى نَقولَ: لا يُفطِرُ،ويُفطِرُ حتَّى نَقولَ: لا يَصومُ. لم أرَهُ في شَهرٍ أكثَرَ صِيامًا منه في شَعبانَ، كان يَصومُ شَعبانَ كُلَّه إلَّا قَليلًا، بل كانَ يَصومُ شَعبانَ كُلَّه.
میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نبیﷺ کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہنے لگیں: آپﷺ روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں، اورجب آپ ﷺ روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب نہيں رکھیں گے، میں نے نبی ﷺ کو شعبان کے مہینہ سے زيادہ کسی اورمہینہ میں زيادہ روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا، آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے ، آپ ﷺ شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے۔
أخرجه البخاري (1969)، وأبو داود (2434)، والنسائي (2351)، وابن ماجه (1710
حضرت اسامہ بن زید نے وجہ پوچھی کہ کثرت سے روزے کیون رکھے ہو
يا رسولَ اللَّهِ ! لم ارك تَصومُ شَهْرًا منَ الشُّهورِ ما تصومُ من شعبانَ ؟ ! قالَ : ذلِكَ شَهْرٌ يَغفُلُ النَّاسُ عنهُ بينَ رجبٍ ورمضانَ ، وَهوَ شَهْرٌ تُرفَعُ فيهِ الأعمالُ إلى ربِّ العالمينَ ، فأحبُّ أن يُرفَعَ عمَلي وأَنا صائمٌ
(صحيح النسائي:2356)
میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اورمہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا:یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جو رجب اوررمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔
پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت پرحدیث پاک سے دلیل
حدثنا حسن ،حدثنا ابن لھیعۃ ،حدثنا حیی بن عبداللہ ،عن ابی عبدالرحمن الحبلی ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: ((یَطَّلِعُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَی خَلْقِہِ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَیَغْفِرُ لِعِبَادِہِ إِلَّا لِاثْنَیْنِ مُشَاحِنٍ وَقَاتِلِ نَفْسٍ۔) (مسند احمد: 6642)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوق پر نظر ڈالتا ہے اور اپنے تمام بندوں کی مغفرت کر دیتا ہے، ما سوائے دو قسم کے آدمیوں کے، کسی سے بغض رکھنے والا اور کسی کا قاتل۔
نوٹ :یہ حدیث پاک اس سند سے اگر چہ ضعیف ہے لیکن اسکی شاہد حدیث ابن ماجۃ 1390 ہے لہذا یہ حدیث صحیح ہوگی ابن ماجہ کی حدیث بالاسناد یہ ہے
حدثنا راشد بن سعید بن راشد الرملی ،قال حدثنا الولید ،عن ابن لھیعۃ ،عن الضحاک بن ایمن ،عن الضحاک بن عبدالرحمن بن عرزب ، عَنْ اَبِیْ مُوسیٰ الاشْعَرِیِّ عَنْ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اِنَّ اللّٰہَ لَیَطَّلِعُ فی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ او مُشَاحِنٍ․
ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ جھانکتے ہیں یعنی متوجہ ہوتے ہیں نصف شعبان کی رات میں، پس اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔
والحديث صحَّحه الإمام ابن حبان. "صحيح ابن حبان" بترتيب ابن بلبان (12/ 481، ط. الرسالة)، وقال الحافظ المنذري في "الترغيب والترهيب" (3/ 307، ط. دار الكتب العلمية): [إن إسناده لا بأس به] اهـ.
یہ حدیث پاک ایک اور سند سےبھی مروی ہے
حدثنا محمد بن ابی زرعۃ : نا ھشام بن خالد : نا ابوخلید عتبۃ بن حماد : عن الاوزاعی و ابن ثوبان عن ابیہ عن مکحول عن مالک بن یخامر عن معاذ بن جبل قال
قال رسول اللہ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔لمشرک او مشاحن
المعجم الاوسط للطبرانی 6776 جلد 07 صفحہ 36
نوٹ :یہی حدیث پاک ان کتب احادیث میں بھی موجود ہے
طبرانی مسند الشامیین 3570 ، معجم الکبیر 215 ، امام ابن ابی عاصم فی السنۃ 512 ، ابن ابی حاتم العلل 1968 ، دارقطنی علل ، کتاب النزول دارقطنی 77 ، حلیۃ الاولیاء امام ابو نعیم اصفھانی ، بیقھی شعب الایمان ،3831,3552،3553 اسکے رجال توثیق شدہ ہیں
شعب الإيمان کی روایت صحیح وحسن ہے۔الترغیب والترھیب میں بھی موجودہے
حدیث نمبر 02 :
عن أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها أنها قالت: فقدتُ النبي صلى الله عليه وآله وسلم ذات ليلة، فخرجت أطلبه، فإذا هو بالبقيع رافعٌ رأسَه إلى السماء، فقال: «يَا عَائِشَةُ، أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ؟» فقُلْتُ: وما بي ذلك، ولكني ظننتُ أنك أتيتَ بعضَ نسائك. فقال: «إِنَّ الله تَعَالَى يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعرِ غَنَمِ كَلْبٍ».
ترمذی شریف 739 ،ابن ماجۃ 1389 ،مسند احمد بن حنبل 26018
ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر میں نہ پایا۔ میں آپ کی تلاش میں نکلی تو دیکھا کہ آپ بقیع میں ہیں اور آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا ہوا ہے۔ ( جب مجھے دیکھا تو ) فرمایا: عائشہ! کیا تجھے یہ ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: میں نے عرض کیا: مجھے یہ خوف تو نہیں تھا لیکن میں نے سوچا شاید آپ اپنی کسی اور زوجہ محترمہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو معاف فرما دیتا ہے ۔
حدیث نمبر03
حدثنا الحسن بن علی الخلال ،قال حدثنا عبد الرزاق ،قال انبانا ابن ابی السبرۃ ،عن ابراھیم بن محمد ،عن معاویۃ بن عبداللہ بن جعفر ،عن ابیہ ،عَنْ عَلِیِّ بنِ اَبِیْ طالبٍ قال قال رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِذَا کانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوا لَیْلَہَا وصُوْمُوْا نَہَارَہَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْزِلُ فِیْہَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فیَقُولُ اَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاَغْفِرَ لَہ اَلاَ مِنْ مُسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقَہ اَلاَ مُبْتَلاً فَاُعَافِیْہِ کَذَا اَلاَ کَذَا حتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ․ (ابن ماجہ 1388)
ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کیا کرو اور اس کے دن (پندرہویں تاریخ) کا روزہ رکھا کرو؛ اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک قریب کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں؟، کیا ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا کروں؟ کیا ہے کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت عطا کروں؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتے رہتے ہیں؛ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔
اس حدیث پاک کی سند میں ابن ابی السبرۃ راوی کی وجہ سے شدت ضعف کا حکم لگایا گیا ہے لیکن یہ حدیث پاک دوسری اسناد سے بھی مروی ہے جن میں اس راوی کا ذکر نہیں ہے
روى البيهقي في "شعب الإيمان" عن عثمان بن أبي العاص رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ نَادَى مُنَادٍ: هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَهُ، هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأُعْطِيَهُ، فَلَا يَسْأَلُ أَحَدٌ شَيْئًا إِلَّا أُعْطِيَ، إِلَّا زَانِيَةٌ بِفَرْجِهَا أَوْ مُشْرِكٌ».
حدیث نمبر 3555 جلد 05 تفسیر درمنثورجلد 7/404
ایک اور سند سے یہی حدیث پاک امام بیقہی نے یوں روایت فرمائی
عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «هَذِهِ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَطْلُعُ عَلَى عِبَادِهِ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِلْمُسْتَغْفِرِينَ، وَيَرْحَمُ الْمُسْتَرْحِمِينَ، وَيُؤَخِّرُ أَهْلَ الْحِقْدِ كَمَا هُمْ».
حدیث نمبر3554 اور اسکے رجال ثقات ہیں۔ تفسیر درمنثور ،الترغیب للمنذری
پندرہ شعبان اور اہل مکہ کا عمل...!!!
امام ابوعبداللہ محمد بن اسحاق بن عباس المکی الفاکہی علیہ الرحمہ (متوفی 272ھ) اپنے زمانے میں پندرہ شعبان میں اہل مکہ کے عمل کے بارے میں لکھتے ہیں:
"وَأَهْلُ مَكَّةَ فِيمَا مَضَى إِلَى الْيَوْمِ إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، خَرَجَ عَامَّةُ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَصَلَّوْا، وَطَافُوا، وَأَحْيَوْا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى الصَّبَاحَ بِالْقِرَاءَةِ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، حَتَّى يَخْتِمُوا الْقُرْآنَ كُلَّهُ"
اور اہل مکہ زمانہ ماضی سے آج تک جب بھی پندرہ شعبان کی رات ہوتی تو تمام اہل مکہ مرد و عورت مسجد (حرام) جاتے ، نماز پڑھتے، طواف کرتے اور ساری رات عبادت کرتے اور مسجد حرام میں صبح تک تلاوت (قرآن) کرتے اور یہاں تک کہ مکمل قرآن ختم کرتے۔
[أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه ج 3 ص 64]
اس دلیل کو پڑھنے کے بعد سوچئے کہ مکہ مکرمہ کے لوگوں کا بھی ہمیشہ سے یہی معمول چلا آرہا تھا تو پتہ چلا کہ یہ عمل اس زمانے کی ایجاد نہیں ہے۔
سیدنا امام شافعی علیہ الرحمہ اور پندرہ شعبان...!!!
سیدنا امام شافعی علیہ الرحمہ(متوفی 204ھ) فرماتے ہیں:
"وَبَلَغَنَا أَنَّهُ كَانَ يُقَالُ: إنَّ الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ فِي خَمْسِ لَيَالٍ فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ، وَلَيْلَةِ الْأَضْحَى، وَلَيْلَةِ الْفِطْرِ، وَأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ"
اور ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہا جاتا تھا کہ پانچ راتوں میں دعا (زیادہ) قبول ہوتی ہے:
1- جمعہ کی رات،
2-عید الاضحی کی رات،
3-عید الفطر کی رات،
4-رجب کی پہلی رات،
5- اور نصف شعبان کی رات۔
آگے امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
وَأَنَا أَسْتَحِبُّ كُلَّ مَا حُكِيَتْ فِي هَذِهِ اللَّيَالِيِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ فَرْضًا
اور میں نے ان راتوں کے متعلق جو بیان کیا ہے اسے مستحب سمجھتا ہوں فرض نہیں سمجھتا۔
[الأم للشافعي ج 2 ص 264]
[سنن الکبری البیهقی ج 3 ص 445 رقم 6293]
[شعب الایمان للبیہقی ج 5 ص 287 رقم 3438]
[معرفۃ السنن والآثار للبیہقی ج 5 ص 118 رقم 7027]
[المجموع شرح المہذب للنووی ج 5 ص 43 ]
امام قسطلانى اور پندرہ شعبان المعظم کی رات
يذكر القسطلاني في كتابه “المواهب اللدنية” ج2ص 259 أن التابعين من أهل الشام كخالد بن معدان ومكحول كانوا يجتهدون ليلة النصفمن شعبان في العبادة، وعنهم أخذ الناس تعظيمها، ويقال إنهم بلغهم في ذلك آثارٌ إسرائيلية. فلما اشتهر ذلك عنهم اختلف الناس، فمنهم من قبله منهم، وقد أنكر ذلك أكثر العلماء من أهل الحجاز منهم عطاء وابن أبي مُلكية، ونقله عبد الرحمن بن زيد بن أسلم عن فقهاء أهل المدينة، وهو قول أصحاب مالك وغيرهم، وقالوا: ذلك كله بدعة.
ثم يقول القسطلاني: اختلف علماء أهل الشام في صفة إحيائها على قولينِ،أحدهما: أنه يُستحب إحياؤها جماعةً في المسجد، وكان خالد بن معدان ولقمان بن عامر وغيرهما يلبسون فيها أحسن ثيابهم ويَتبخَّرُونَ ويكتحلون ويقومون في المسجد ليلتهم تلك، ووافقهم إسحاق بن راهويه على ذلك وقال في قيامها في المساجد جماعة : ليس ذلك ببدعة،نقله عنه حرب الكراماني في مسائله.
والثاني: أنه يكره الاجتماع في المساجد للصلاة والقصص والدعاءولا يكره أن يصلي الرجل فيها لخاصَّة نفسه، وهذا قول الأوزاعي إمام أهل الشام وفقيههم وعالمهم.
ولا يُعرف للإمام أحمد كلام في ليلة النصف من شعبان، ويتخرج في استحباب قيامها عنه روايتان منالروايتين عنه في قيام ليلتي العيد، فإنه في روايةٍ لم يُستحب قيامها جماعة، لأنه لم ينقل عن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ ولا عن أصحابه فِعلها، واستحبها في رواية لفعل عبد الرحمن بن زيد بن الأسود لذلك، وهو من التابعين، وكذلك قيام ليلة النصف من شعبان لم يثبت فيها شيء عن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ ولا عن أصحابه، إنما ثبت عن جماعة من التابعين من أعيان فقهاء أهل الشام، انتهى. ملخصًا من اللطائف.
ابن تیمیہ کی رائے نصف شعبان کی عبادت کے متعلق
سئل ابن تيمية عن صلاة نصف شعبان؟ فأجاب: إذا صلى الإنسان ليلة النصف وحده أو فی جماعة خاصة کما کان يفعل طوائف من السلف فهو أحسن.
(مجموع فتاوى ابن تيمية، 23: 131)
’’ابنِ تیمیہ سے نصف شعبان میں نفلی نماز ادا کرنے کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: جب کوئی بھی انسان نصف شعبان کی رات کو اکیلا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھے جیسا کہ سلف میں سے بہت سارے گروہ اس کا اہتمام کرتے تھے تو یہ بہت خوب ہے۔‘‘
یادرہے جلیل القدر محدثین کے نزدیک فضائل میں ضعیف حدیث پاک بھی مقبول ہوتی ہے چہ جائیکہ جو احادیث درجہ حسن تک پہنچ جائیں۔حسن درجہ کی احادیث سے تواحکام شرع بھی مستنبط ہوتے ہیں فضائل تو بدرجہ اولی ثابت ہوتے ہیں
اور شعبان المعظم کی پیندریوں شب کی فضلیت میں مروی احادیث درجہ حسن تک ہیں جیسا کہ تفصیلی طورپر اوپر سب کا ذکر ہوچکا ہے۔
آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ان تمام دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی شخص شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت اور اسمیں قیام اور بیداری کو ناجائز اور بدعت نہیں کہہ سکتا مگر ہاں جو ضدی ہو اور اس کا دل عناد میں مبتلا ہو ۔
ھذا ماھو عندی واللہ عندہ حسن الصواب وماتوفیقی الاباللہ وعلیہ توکلت والیہ انیب
صلی اللہ علی حبیبہ وعلی آلہ واصحابہ وعلماء اھلسنتہ و امتہ اجمعین یاارحم الراحمین